Orhan

Add To collaction

نفرت 

نفرت 
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر1



" اتنی رات کو کہاں سے آ رہی ہو تم  " 
آغا جان کی گرج دار آواز پورے گھر میں بازگشت کرنے لگی 
" میں اپنی سہیلی کی سالگرہ پر اس کے گھر گئی تھی " 
اس کی آواز میں بھر پور اعتماد تھا 
" کس سے پوچھ کر گئیں تھیں تم "
آغا جان کی آواز اب پہلے سے کہیں بلند تھی 
" میں امی کو بتا کر گئی تھی "
اس کا اعتماد کم نہ ہوا ، نہ ہی اس کی زبان لڑکھڑائی 
" پوچھ کر کس سے گئیں تھیں تم " 
ان کا غصہ کم نہ ہوا ۔۔۔۔۔ 
سامنے پورا گھر کھڑا تھا ، آغا جان ، تایا جان ، دلاور ، عظمی تائی ، ق اس کی امی ، انم ، ثوبیہ بھابھی اور نرمین ۔۔۔۔۔۔ آغا جان سب کے سامنے اس کی عدالت لگائے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی امی جو کب سے خاموشی سے سب دیکھ رہی تھیں ڈرتے ہوئے اس کی دفاع کرنے آغا جان کے سامنے آ گئیں ۔۔۔۔۔
" آغا جان میں نے اجازت دی تھی اسے " 
آغا جان نے غصے سے گھور کر سعدیہ کو دیکھا 
" تم ہوتی کون ہے یہ فیصلہ کرنے والی ۔۔۔ تم اگر اس گھر کی روایت اور اصول بھول گئی ہو تو میں تمہیں پھر سے یاد دلا دوں ۔۔۔۔ اس گھر کے سارے فیصلے مرد کرتے ہیں ۔۔۔۔ عورتوں کا کام صرف باورچی خانہ سنبھالنا ہے ۔۔۔۔۔ آئندہ یہ بات تم بھی سمجھ جاو اور اپنی بیٹیوں کو بھی سمجھا دو " 
یہ آخری جملہ تھا جو آغا جان نے کہا تھا اس کے بعد وہ غصے سے وہاں سے چلے گئے ، اور باقی گھر والے بھی ادھر ادھر ہو گئے ۔۔۔۔۔۔وہ جب کمرے میں آئی تو سب سے پہلا تھپڑ امی کو پڑا تھا اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جانتی تھی امی اس کے انتظار میں ہوں گی اور اب اسے دوسری عدالت کا سامنا کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔
" کہا تھا نہ تم سے مت جاو رات کو ۔۔۔ کیوں گئیں تھیں تم " 
عشرت نے غصے سے دوپٹہ اتار کر بیڈ پر پھینک دیا ۔۔۔۔۔
" میں نے کوئی چوری نہیں کی امی ۔۔۔ بتا کر گئی تھی آپ کو " 
" آغا جان کو تو نہیں بتا کر گئیں تھیں تم " 
" میں آغا جان کی ملازمہ نہیں ہوں جو ہر بات ان سے پوچھ کر کروں ۔۔۔۔ اگر ان کا بس چلے تو اس گھر کی عورتیں پر سانس لینے کے لئے بھی پابندی لگا دیں " 
" آہستہ بولو بدبخت ۔۔۔۔ اگر کسی نے سن لیا تو ۔۔۔۔۔ " 
عشرت سعدیہ کی بات کاٹ کر بولی۔۔۔۔۔
" تو سن لیں میں ڈرتی کسی سے نہیں " 
سعدیہ نے گھبرا کر دروازہ بند کر لیا 
" بند کرو بکواس خدا کے لئے چپ ہو جاو " 
" امی ایک بات آپ بھی سن لیں ۔۔۔ اس گھر میں جو سو سالہ پرانی عورتوں کو غلام سمجھنے والی روایات زندہ ہیں میں ان کو کبھی تسلیم نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔۔ زندگی اپنی مرضی سے جیوں گی جو میرا دل کرے گا میں وہی کروں گی ۔۔۔۔۔۔۔ " 
سعدیہ سر پر ہاتھ رکھ کر صوفے پر گر گئیں ۔۔۔۔
" یا اللہ ۔۔۔۔۔۔ یا اللہ ہدایت دے اس لڑکی کو ۔۔۔۔۔ " 
وہ بال کھول کر واش روم میں گھس گئی ۔۔۔۔ 
 اکیسویں صدی کے اس دور میں آج بھی شہر سے دور کچھ علاقوں میں ایسی جاہلانہ رسومات اور روایات زندہ تھیں جن میں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی جہاں آنکھیں کھولتے ہی اس نے ہمیشہ گھر پر مردوں کو حکومت کرتے اور گھر کی عورتوں کو ان کے سامنے سر جھکائے دیکھا ۔۔۔۔۔ وقت بدل گیا زمانہ بدل گیا لیکن ان کے گھر کی روایات نہیں بدلیں ۔۔۔۔۔ کھانے میں کیا بنے گا سے لے کر گھر کی ایک اینٹ تک ہر فیصلہ آغا جان یا تایا جان ہی کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
گھر کی عورتوں کو اپنی مرضی سے ایک گملہ بھی یہاں سے اٹھا کر وہاں رکھنے کی اجازت نہ تھی ۔۔۔۔۔ عورتوں کے کپڑے جوتے حتی کی ان کی شادیوں کے فیصلے بھی مرد ہی کرتے تھے ۔۔۔۔ وہ وہ پرانی سوچ رکھنے والے لوگ تھے جو عورت کا بولنا بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے باپ کی ڈیٹھ چار سال قبل ہوئی تھی ان کی زندگی میں اسے کافی اختیارات حاصل تھے گھر کے پرانے نظام کے باجود اس کے ابو نے کبھی اس کے ساتھ زیادتی والا رویہ نہیں رکھا ۔۔۔۔ ہمیشہ اسے عزت احترام اور محبت دی ۔۔۔۔  آغا جان اور تایا جان کی سخت مخالفت کے باوجود اسے تعلیم دلوائی اور وہ شعور دلوایا کہ آج وہ اپنے خاندان کے غلط روایات کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے ۔۔۔۔۔ 
آغا جان لڑکیوں کے تعلیم کے خلاف تھے آج سے پہلے خاندان کی کسی لڑکی نے اتنی تعلیم حاصل نہیں کی کوئی اگر زیادہ کوشش بھی کرتا تھا مڈل سے آگے نہیں جا پاتا ۔۔۔۔۔ فیروز تایا کی بیٹی انم اور اس کی بڑی بہن نرمین دونوں ہی مڈل سے زیادہ تعلیم نہ حاصل کر سکیں ۔۔۔۔
آغا جان کا اکلوتا پوتا اور بقول ان کے اس گھر کا اگلا وارث  تایا کا بیٹا ' سکندر '  تعلیم کے لئے امریکہ تک گیا لیکن وہاں جا کر بھی وہ آغا جان کی مقرر کردہ حدوں سے باہر نہیں نکل سکا ، اور ان پرانے خیالات سے آزاد نہ ہو سکا جو آغا جان اور تایا جان برسوں سے اس کا برین واش کرتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے جب وہ اتنا زیادہ پڑھ لکھ کر واپس آیا تو لگتا نہیں تھا وہ بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہے ۔۔۔ وہی جاہلانہ سوچ عورت پیر کی جوتی ۔۔۔۔ عورتوں پر حکمرانی ۔۔۔۔۔۔
یہ تو اچھا ہوا اس کے ابو جمال ظفر نے اسے اتنا تو شعور دلوایا کہ وہ اب اپنے حق کے لئے آواز اٹھا سکتی تھی ۔۔۔ اس کے باوجود ابو کو ساری زندگی تایا اور آغا جان سے طعنے ملتے رہے ۔۔۔ بیوی کا غلام ۔۔۔ بے غیرت مرد ۔۔۔ وغیرہ ۔۔۔ اور ابو نے بھی خاموشی سے سب کچھ سن کر برداشت کیا اور کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا ۔۔۔۔۔
پھر بھی آغا جان ان سے کبھی راضی نہ ہوئے ۔۔۔ ایک رات خاموشی سے انہوں نے اس دنیا سے رخصت لے لی  اور ان تینوں ماں بیٹیوں کو آغا جان اور ان کے خاندان کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے ۔۔۔۔۔
آغا جان پہلے اگر انہیں تھوڑی بہت اہمیت دیتے بھی تھے تو وہ جمال ظفر کی وفات کے بعد بالکل ختم ہو گئی ۔۔۔ 
جائیداد ساری آغا جان کی مٹھی میں تھی اس لئے ان کے سامنے سر جھکانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا ان تینوں کے پاس ۔۔۔۔۔۔ عظمی تائی کی پاور ان سے کہیں زیادہ تھی وہ دو بیٹوں کی ماں تھیں اور ان کا شوہر بھی زندہ تھا ابھی ۔۔۔۔۔۔ اس لئے ان کی ہر بات کو اہمیت حاصل تھی ۔۔۔۔۔
 آغا جان تین بار ایم این اے سلیکٹ ہوئے اور اب وہ آئندہ الیکشن میں اپنے پوتے سلطان فیروز کو سامنے لانا چاہتے تھے  ۔۔۔۔۔۔ 
عشرت کو ان کی ذاتی زندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ جو چاہیں کریں لیکن اسے ان کی یہ ذبردستی عورتوں پر حکومت کرنے والی عادت سے سخت نفرت تھی ۔۔۔۔۔۔ 
_____________________________________________
گیلے بالوں کے ساتھ وہ چھت پر چلی آئی اس کے ہاتھ میں   چائے کا کپ تھا ۔۔۔۔ آج بارش کے بعد چھت پر ٹھنڈی ہوا اسے بھلی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھے وہ آسمان پر چاند ستاروں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
کوئی طوفان کی تیزی سے اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔
" کہاں گئیں تھیں تم اتنی رات کو " 
عشرت  بنا اس کی آمد کا نوٹس لئے اور بنا اسے اہمیت دیے خاموشی سے دوسری طرف منہ کر کے چائے کے سپ لے رہی تھی ۔۔۔۔۔ جیسے وہ پہلے سے اس کی آمد کے بارے میں جانتی تھی ۔۔۔۔۔
" میں تم سے بات کر رہا ہوں " 
" تم ہوتے کون ہو مجھ سے سوال کرنے والے " 
وہ نہ تو اس کے رعب دار شخصیت سے ڈر رہی تھی اور نہ ہی اس کے دراز قد سے ۔۔۔۔۔ 
" تمہارا منگیتر اور ہونے والا شوہر  " 
وہ غصے سے دھاڑا
" خوش فہمی ہے تمہاری ۔۔۔۔ میں کسی منگنی کسی رشتے کو نہیں مانتی " 
" تمہارے ماننے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ اور یہ نظریں جھکا کر بات کرو مجھ سے ۔۔۔۔۔۔اور دوپٹہ سر پر لو " اچانک اس کی نظر زویا کے کھلے بالوں کی طرف گئی ۔۔۔۔
" نوکر نہیں ہوں میں تمہاری ۔۔۔۔ خرید کے نہیں رکھا تم نے مجھے ۔۔۔۔۔ " 
" یہ تم تم ۔۔۔کیا لگا رکھا ہے آپ کہا کرو مجھے ۔۔۔۔ " 
" کیوں تمہاری شکل اچھی ہے ۔۔۔۔۔ چلو یہاں سے چائے پینے دو مجھے  " 
" تم پہلے بتاو مجھے کہاں گئیں تھیں اتنی رات کو " 
وہ اس کے بازو دبوچ کر بولا 
" ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔۔ میں تمہارے سامنے جواب دہ نہیں ہوں ۔۔۔۔ " 
سکندر نے اس کے ہاتھ سے کپ چھین کر دور پھینک دیا اور اسے اپنے مزید قریب کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
" بتاو مجھے " 
عشرت نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔۔۔۔ 
" اپنی لمٹ میں رہا کرو ۔۔۔۔ میں کہاں جاتی ہوں کیوں جاتی ہوں اس سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں  " 
وہ غصے سے اس کے سامنے سے گزرتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
"  چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں " 
پیچھے سے سکندر کی غصے بھرے آواز کو بنا کوئی اہمیت دیئے وہ اپنے کمرے میں آئی ۔۔۔۔۔ سامنے نرمین آپی کھڑی نظر آئیں ۔۔۔۔
" سکندر کیا کہہ رہا تھا " 
" بکواس کر رہا تھا " 
" بری بات ایسا نہیں کہتے عشرہ " 
" پلیز آپی اب آپ نہ شروع ہو جائیں امی کی طرح " 
نرمین ٹھنڈی سانس لے کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔ وہ ڈائجسٹ اٹھا کر پڑھنے لگی ۔۔۔۔
" امی بتا رہیں تھیں تم رات کو باہر گئیں تھیں اتنی رات کو کہاں گئیں تھیں تم ۔۔۔۔ ؟ 
عشرت نے ڈائجسٹ رکھ کر آنکھیں پھاڑ کر نرمین کو دیکھا ۔۔۔۔
" آپی جسے آپ سب لوگ صبح سے اتنی رات اتنی رات کہہ رہے ہیں  وہ کوئی رات کے دو بجے نہیں تھے آٹھ بجے ہی واپس آ گئی تھی میں ۔۔۔۔۔۔ " 
وہ سب کو جواب دے دے کر اکتا چکی تھی اور سب سے زیادہ غصہ اسے سکندر نے دلایا تھا ۔۔۔۔۔
" تم یہ کیسے بھول گئیں ہمارے گھر میں شام پانچ کے بعد عورتوں خاص طور پر لڑکیوں کا گھر سے نکلنا بند ہو جاتا ہے " 
عشرت اب ٹیبل سے سیب اٹھا کر کھا رہی تھی 
" وہ سب قانون تم جیسی ڈرپوک لڑکیوں کے لئے ہوتے ہوں گے ۔۔۔۔میں آغا صاحب کا بنایا ہوا ایسا کوئی رول نہیں مانتی ۔۔۔۔۔ " 
اس نے طنز کرتے ہوئے کہا 
" تمیز سے بات کرو آغا جان کے بارے میں وہ دادا بھی ہیں تمہارے ۔۔۔۔ " 
" جب رشتوں کا تقدس وہ نہیں مانتے تو میں کیوں مانوں ۔۔۔۔ انہوں نے کبھی مجھے پوتی سمجھا ہے ہمیشہ ایک عورت سمجھا ہے اور عورت ان کی نظروں میں صرف پاوں کی جوتی ہے ۔۔۔۔۔ جس شخص کے دل میں میرے  لئے عزت اور محبت نہیں میں کبھی اسے عزت اور محبت نہیں دے سکتی ۔۔۔۔۔ " 
نرمین نے اپنا سر پیٹ لیا ۔۔۔ واقعی امی ٹھیک کہتی تھیں وہ نہیں سمجھ سکتیں ۔۔۔۔
" تمہیں کیا ملتا ہے یہ سب کر کے عشرت ۔۔ ہم سب بھی تو زندگی جی رہے ہیں ہمیں تو کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔۔۔۔ " 
" اچھا سچ میں آپ کو کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔۔۔ ۔۔۔۔  آغا جان نے آپ کی شادی بنا آپ سے پوچھے اپنے کسی دوست کے بیٹے سے کر دی اور اس نے دو مہینے میں ہی آپ کو طلاق دے کر گھر بھیج دیا ۔۔۔۔ اور اب آغا جان آپ کی دوسری شادی کے لئے بھی نہیں مانتے ۔۔۔۔۔ ہمارے ابو کو بھی یہی غم اور سٹریس لے ڈوبا ۔۔۔۔۔ آغا جان نے آج تک امی کو اور ہمیں قبول نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ اور تم کہتی ہو ہمیں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔" 
عشرت پھٹ پڑی ۔۔۔۔ نرمین نے نظریں چرائیں ۔۔۔۔۔
"اور آپ زندگی جی نہیں رہیں گزار رہی ہیں  " 
" لیکن تم کبھی اس سب کو بدل نہیں سکتیں یہ روایات برسوں سے چلے آ رہے ہیں تم انہی اصولوں کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ " 
نرمین نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بڑی اداسی سے کہا ۔۔۔۔
" مجھے گھٹن ہوتی ہے اس محل میں جہاں سب کچھ ہے صرف آزادی نہیں ۔۔۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے بھاگ جاوں اس قید خانے سے ۔۔۔۔۔ " 
وہ کچھ اداسی سے بولی ۔۔۔۔۔  
" اچھا چھوڑو یہ فضول باتیں ۔۔۔۔ یہ بتاو سکندر نے کہا تم سے " 
______________________________________________
دسمبر لوٹ آنا تم 
ناصر حسین کا مقبول ناول کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے اگر آپ آرڈر کرنا چاہتے ہیں تو ابھی اس نمبر پر وٹس ایپ کریں __ 
 03054762826
___________________________________________
نرمین نے یک دم موضوع بدل دیا وہ اکثر عشرت کے ارادوں سے ڈر جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔
" وہی پرانی بکواس ۔۔۔۔ دوپٹہ سر پر لو ۔۔۔۔۔ مجھ آپ کہو ۔۔۔۔ فلاں فلاں ۔۔۔۔۔ " 
" تو تم اس کی بات مان کیوں نہیں لیتیں ۔۔۔۔۔ " 
" دماغ تو نہیں خراب میرا ۔۔۔۔ میں کیوں کسی کی بات ماننے لگی ۔۔۔۔ " 
" وہ کسی نہیں تمہارا منگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " 
عشرت نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔۔
" میں یہ سن سن کر بور ہو چکی ہوں ۔۔۔  بیس سال پہلے کی گئی کسی احمقانہ منگنی کو میں نہیں مانتی ۔۔۔۔ یہ ان مردوں کا فیصلہ تھا جو خود کو دوسروں کی زندگی کا خدا سمجھتے ہیں جبکہ میں صرف ایک خدا کو جانتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ " 
کھلے دروازے سے امی کپڑے لئے داخل ہوئیں ۔۔۔۔
" سمجھاو۔۔۔  سمجھاو۔۔۔۔اس بدبخت کو کچھ ۔۔۔ اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مروائے گی ۔۔۔۔۔ اگر آغا جان اور فیروز بھائی اس کی  بکواس سن لیں تو ابھی ہم سب کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیں گے ۔۔۔۔۔ " 
عشرت تیزی سے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
" ایسے کیسے نکال دیں گے  ۔۔۔۔یہ گھر ان کے باپ کا ہے کیا ۔۔۔ اس گھر میں ابو کا بھی آدھا حصہ ہے ۔۔۔۔۔ " 
وہ زور سے چلا اٹھی ۔۔۔۔ سعدیہ بیگم اور نرمین دو شاکڈ تھے ۔۔۔۔۔
" آہستہ بولو کم بخت " 
سعدیہ بیگم نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ اور اسے زور سے دھکا دیا ۔۔۔ وہ بیڈ پر جا گری ۔۔۔۔۔ نرمین بھی کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
" خدا کا خوف کرو عشرت کیوں ہم سب کو بے عزت کرنا چاہتی ہو تم ۔۔۔۔۔ " 
وہ بیڈ پر پڑی غصے سے کھول رہی تھی ۔۔۔۔۔
" اچھا امی آپ بھی اب جائیں میں سمجھا دوں گی اسے ۔۔۔۔۔ "
____________________________________________
" تمہاری برتھ ڈے پر آنا مجھے مہنگا پڑ گیا ۔۔۔۔ پوچھو ناں کیا کیا تماشے ہوئے ہیں یہاں ۔۔۔۔۔ " اگلے دن وہ لان میں ٹہلتے ہوئے کال پہ بات کر رہی تھی  ۔۔۔۔ اور ساتھ اپنے ناخن بھی چبا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
" مجھے پتا نہیں تھا تماری فیملی والے اس طرح کے ہیں نہیں تو میں کبھی تمہیں آنے کے لئے اتنا فورس نہ کرتی ۔۔"  
زویا کچھ شرمندگی سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔
" نہیں قصور تمہارا نہیں ہے زویا ۔۔۔۔۔ دماغ خراب ہے سب کا ان کو لگتا ہے اگر گھر کی عورت گھر سے باہر نکلی تو ان کی عزت ہی لٹ جائے گی یہ معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔۔۔۔۔ " 
وہ ٹہلتے ٹہلتے گھاس پہ رکھی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
" جو بھی ہے لیکن تمہیں بھی اب اسی گھر کے انہی رولز کے ساتھ زندگی گزارنی ہے ۔۔۔۔ سکندر بھی اسی سوچ کا مالک ہے ۔۔۔۔۔ " 
" اس کا تو نام ہی نہ لو میرے سامنے ۔۔۔۔ اور یہ بھی نہ سوچو میں اس گھر کی جاہلانہ رولز کے ساتھ سمجھوتہ کر لوں گی ۔۔۔۔۔مر جاوں گی لیکن اس چھوٹی سوچ کے انسان سے کبھی شادی نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ " 
سکندر کا نام سن کر وہ اکثر کھول جاتی تھی ۔۔۔۔
" چل ٹھیک ہے بعد میں بات کروں گی ابھی کیک بنانے کے لئے اوون میں رکھا ہے کہیں جل نہ جائے ۔۔۔۔ " 
" چل ٹھیک ہے اللہ حافظ ۔۔۔۔ " 
کال کٹ ہونے کے بعد بھی وہ وہیں بیٹھی رہی  ۔۔۔ گھر میں لڑکیوں کے موبائل استعمال کرنے پر پابندی تھی اس لئے وہ چھپا کر استمعال کرتی تھی ۔۔۔۔ ابھی تک وہ اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ یک دم سب سے بغاوت کر سکے ۔۔۔۔۔۔
انم چائے کے دو کپ لئے لان میں آئی اور اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ وہ اس کی کزن تھی فیروز تایا کی بیٹی اور  سکندر کی بہن ۔۔۔۔۔ اپنی ماں اور بھائی ،  باپ کے برعکس وہ مزاجا کافی سلجھی ہوئی اور خوش اخلاق تھی ۔۔۔۔
" کیسی ہو تم " 
" میں ٹھیک تم کیسی ہو ۔۔۔۔ " 
" ٹھیک ہوں ۔۔۔ چائے پیو گی ۔۔۔۔ " 
" ہاں لیکن تم پہلے سے ہی دو کپ لائی ہو تمہیں کیسے پتا تھا میں یہاں ہوں ۔۔۔۔۔ " 
" میں نے کچن سے دیکھ لیا تھا " 
انم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
 " شادی کب ہو رہی ہے تمہاری ۔۔۔۔۔ " 
" کیوں تمہیں نہیں پتا کیا ۔۔۔۔ "  
" نہیں ۔۔۔۔۔  نرمین آپی کوئی ڈیٹ بتا تو رہی تھیں لیکن میرے ذہن میں نہیں رہا ۔۔۔۔۔ " 
انم کپوں میں چائے بنانے لگی ۔۔۔۔ 
" سچ پوچھو عشرت تو مجھے خود کو بھی ڈیٹ اچھے سے معلوم نہیں ہے ۔۔۔۔ " 
انم کچھ افسردگی سے بولی ۔۔۔۔
" تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا انم کے لڑکا کون ہے " 
انم چائے کا سپ لیتے لیتے رک گئی اور شرمندگی سے پہلو بدلنے لگی ۔۔۔ 
" آخر کب تک ایسے نظریں چراتی رہو گی ۔۔۔۔ کبھی نہ کبھی تو تمہیں زندگی کا سامنا کرنا ہی ہوگا  ۔۔۔۔ کیا تم سچ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزار دو گی جسے تم جانتی نہیں جسے دیکھا نہیں ۔۔۔۔۔ " 
انم نے اداسی سے کپ پھر سے ٹیبل پر رکھ دیا ۔۔۔  اور ڈوبتے سورج کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔ 
" اور کر بھی کیا سکتی ہوں میں  ۔۔۔ " 
" تم کم از کم احتجاج تو کر سکتی ہو ایسا ظالمانہ فعل کے خلاف ۔۔۔۔۔ " 
" میں تمہاری طرح بہادر نہیں ہوں عشرت ۔۔۔۔۔ "
وہ ابھی آگے بھی کچھ کہنے والی تھی کہ پیچھے سے آتی عظمی تائی کو دیکھ کر رک گئی ۔۔۔۔ تائی شاید ان کی کچھ باتیں سن چکی تھیں اس لئے پاس آتے ہی اس پر برس پڑیں ۔۔۔۔
" یہ کیا الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہی ہو تم انم کو ۔۔۔۔ " 
انم گھبرا کر کھڑی ہوئی جبکہ اس کے چہرے پر ڈر اور گھبراہٹ جیسے کوئی آثار نہیں تھے ۔۔۔۔۔
" میں کیوں پٹیاں پڑھاوں گی تائی ۔۔۔۔۔ جو سچ ہے وہی تو کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔ " 
" نہ تیری بڑی مہربانی تو سچ نہ بولا کر ۔۔۔۔ اور میری بیٹی سے دور رہا کر ۔۔۔۔ " 
تائی نے اس کے سامنے مصنوعی ہاتھ جوڑتے ہوئے غصہ سے کہا ۔۔۔۔۔
" آپ لوگ کیوں اس کی شادی زبرستی کر رہے ہیں اس بیچاری نے تو لڑکے کو دیکھا بھی نہیں  ۔۔۔۔۔ " 
وہ کپ رکھ کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔
" اس گھر میں شادیاں ایسے ہوتی ہیں ۔۔۔ اس پر کوئی انوکھی قیامت نہیں ٹوٹ رہی میری بھی شادی ایسے ہوئی تھی تیری ماں کی بھی ایسے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ " 
" لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا تائی ۔۔۔۔ اب دنیا بدل چکی ہے ۔۔۔ " 
" لیکن اس گھر کے اصول کبھی نہیں بدلیں گے ۔۔۔۔ انم تم چلو میرے ساتھ اندر۔۔۔۔  اور جب تک تمہاری شادی نہ ہو جائے اس سے بیس فٹ دور رہنا ۔۔۔۔۔ اور تم ۔۔۔۔۔ آج کرتی ہوں میں سعدیہ بھابھی سے بات ۔۔۔۔۔۔ " 
اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے ۔۔۔۔ اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ امی سے اس کی شکایت کی جائے گی ایسی سیکڑوں شکایات روز ہوتی رہتی تھیں اس کی ۔۔۔۔۔۔۔
رات کو دس بجے وہ کچن میں اپنے لئے چائے بنا رہی تھی جب وہ اچانک کچن میں آیا تھا ویسے وہ اس گھر کا مرد تھا جو کچن میں قدم رکھنا بھی توہین سمجھتے تھے لیکن پتا نہیں اس وقت کیسے آ گیا ۔۔۔۔۔۔
" کیا کر رہی ہو تم " 
" چائے بنا رہی ہوں ۔۔۔۔ " 
اس نے روکھے انداز میں جواب دیا ۔۔۔۔
" اتنی رات کو کیوں جاگ رہی ہو تم جا کر سو جاو ۔۔۔۔ " 
وہ حکم دینے والے انداز میں بولا ۔۔۔۔ اس گھر میں لڑکیوں کا دیر رات تک جاگنا بھی جرم تھا ۔۔۔۔
" کیا یہ بھی تمہارے آغا صاحب کا حکم ہے " 
" نہیں یہ میرا حکم ہے ۔۔۔۔ " 
" اگر یہ آغا صاحب کا حکم ہے تو میں نہیں مانوں گی اور اگر تمہارا حکم ہے تو بالکل نہیں مانوں گی ۔۔۔۔۔ "

   1
0 Comments